حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے سروپا قصہ
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
انتشرت
قصة بين الكثير من الناس ، ومضمونها :
أن زوجة عمر بن الخطاب رضي الله عنه ترفع صوتها عليه ، ونصها : (( أن رجلاً جاء إلى عمر يشكو إليه خلق زوجته فوقت ببابه ينتظره فسمع امرأته تستطيل عليه بلسانها وهو ساكت لا يرد عليها ، فانصرف الرجل قائلاً : إذا كان هذا حال أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه فكيف حالي ؟ فخرج عمر فرآه مولياً فناداه : ما حاجتك أخي ؟ فقال : يا أمير المؤمنين جئت أشكو إليك خلق زوجتي واستطالتها علي فسمعت زوجتك كذلك فرجعت ، وقلت : إذا كان هذا حال أمير المؤمنين مع زوجته فكيف حالي ؟ فقال له : إنما تحملتها لحقوق لها علي : إنها طباخة لطعامي ، خبازة لخبزي ، غسالة لثيابي ، رضاعة لولدي ، وليس ذلك بواجب عليها ، ويسكن قلبي بها عن الحرام ، فأنا أتحملها لذلك ، فقال الرجل : يا أمير المؤمنين وكذلك زوجتي ؟ قال : فتحملها يا أخي فإنما هي مدة يسيرة ))
ترجمہ :
ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تاکہ اپنی زبان دراز بیوی کے خلاف شکایت کرے، جب وہ حضرت عمر کے دروازے پر آیا تو سنا کہ حضرت عمر کی اہلیہ بھی ان سے اونچی آوازمیں باتیں کررہی ہیں اور سیدناعمررضی اللہ عنہ خاموش ہیں ، تو اس نے سوچا کہ یہاں توخود خلیفۃ المسلمین بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔وہ واپس جانے لگا تو حضرت عمر نے اسے بلابھیجا اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا میں تو اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا، جب میں نے آپ کی بیوی کو بھی ایسا ہی پایا تو واپس پلٹ گیا!
حضرت عمر نے فرمایا کہ میری بیوی کے جو مجھ پر حقوق ہیں، ان کی وجہ سے میں اس کی باتوں کو درگزر کردیتا ہوں، جیسے یہ کہ وہ میرے لئے کھانا بناتی ہے ، میرے کپڑے دھوتی ہے ، میرے بچوں کو پالتی ہے حالانکہ یہ کام اس پر واجب نہیں ہیں، اور میرے سکون قلب کا ذریعہ ہے ، اسلئے میں اس کے اس طرز عمل کو برداشت کرتا ہوں ،
یہ باتیں سن کر اس آدمی نے کہا کہ یہ معاملہ تو میرے ساتھ بھی ہے، فرمایا : کوئی بات نہیں تحمل و برداشت سے کام لو، یہ تھوڑی سی مدت کیلئے ہی ہے "
أن زوجة عمر بن الخطاب رضي الله عنه ترفع صوتها عليه ، ونصها : (( أن رجلاً جاء إلى عمر يشكو إليه خلق زوجته فوقت ببابه ينتظره فسمع امرأته تستطيل عليه بلسانها وهو ساكت لا يرد عليها ، فانصرف الرجل قائلاً : إذا كان هذا حال أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه فكيف حالي ؟ فخرج عمر فرآه مولياً فناداه : ما حاجتك أخي ؟ فقال : يا أمير المؤمنين جئت أشكو إليك خلق زوجتي واستطالتها علي فسمعت زوجتك كذلك فرجعت ، وقلت : إذا كان هذا حال أمير المؤمنين مع زوجته فكيف حالي ؟ فقال له : إنما تحملتها لحقوق لها علي : إنها طباخة لطعامي ، خبازة لخبزي ، غسالة لثيابي ، رضاعة لولدي ، وليس ذلك بواجب عليها ، ويسكن قلبي بها عن الحرام ، فأنا أتحملها لذلك ، فقال الرجل : يا أمير المؤمنين وكذلك زوجتي ؟ قال : فتحملها يا أخي فإنما هي مدة يسيرة ))
ترجمہ :
ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تاکہ اپنی زبان دراز بیوی کے خلاف شکایت کرے، جب وہ حضرت عمر کے دروازے پر آیا تو سنا کہ حضرت عمر کی اہلیہ بھی ان سے اونچی آوازمیں باتیں کررہی ہیں اور سیدناعمررضی اللہ عنہ خاموش ہیں ، تو اس نے سوچا کہ یہاں توخود خلیفۃ المسلمین بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔وہ واپس جانے لگا تو حضرت عمر نے اسے بلابھیجا اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا میں تو اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا، جب میں نے آپ کی بیوی کو بھی ایسا ہی پایا تو واپس پلٹ گیا!
حضرت عمر نے فرمایا کہ میری بیوی کے جو مجھ پر حقوق ہیں، ان کی وجہ سے میں اس کی باتوں کو درگزر کردیتا ہوں، جیسے یہ کہ وہ میرے لئے کھانا بناتی ہے ، میرے کپڑے دھوتی ہے ، میرے بچوں کو پالتی ہے حالانکہ یہ کام اس پر واجب نہیں ہیں، اور میرے سکون قلب کا ذریعہ ہے ، اسلئے میں اس کے اس طرز عمل کو برداشت کرتا ہوں ،
یہ باتیں سن کر اس آدمی نے کہا کہ یہ معاملہ تو میرے ساتھ بھی ہے، فرمایا : کوئی بات نہیں تحمل و برداشت سے کام لو، یہ تھوڑی سی مدت کیلئے ہی ہے "
۔┄┅════════════════════════┅┄
هذه القصة مختلقة باطلة لا إسناد لها ، وليس لها وجود في دواوين
السنة ، والسيرة ، والتاريخ ، ولا عند من جمع الموضوعات وما شابه .
إنما ذكرها السمرقندي في [ تنبيه الغافلين - ٥١٧ ، وهو كتاب محشو بالموضوعات ] ، وذكرها الهيتمي في [ الزاجر - ٢/٨٠ ] ، والبجيرمي في [ الحاشية
- ٣/٤٤١ ] ، هكذا بلا إسناد ، ولا عزو إلا مصدر ، بل ذكروها بصيغة التمريض
أي التضعيف .
ومن جهة أخرى ، فمعناها باطل أيضاً ، من عدة وجوه ، أبرزها هيبة
أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال ابن عباس رضي الله عنهما : ((
مكثت سنة أريد أن أسأل عمر بن الخطاب عن آية فما أستطيع أن أسأله هيبة له )) ، [
أخرجه الإمام البخاري - ٤٩١٣ ، وأخرجه الإمام مسلم - ١٤٧٩ ] . والأخبار الثابتة في هيبة عمر رضي الله عنه كثيرة جداً ، فرفع
زوجة عمر رضي الله عنه صوتها عليه حتى يسمع من بالخارج ينافي تماماً هيبة عمر رضي
الله عنه
۔┄┅════════════════════════┅┄
یہ روایت
حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی
حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی
(أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن
إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ)
نے اپنی کتاب " تنبیہ الغافلین " میں نقل کی ہے ،یہ بزرگ فقیہ ہونے کے ساتھ ایک قصہ گو واعظ بھی تھے ، اور اسی شوق کی تکمیل میں وعظ و قصص کے موضوع پر ایک کتاب "تنبیہ الغافلین " بھی لکھ ڈالی ، اور اس میں بے شمار بے سروپا روایات جمع کردیں ،
نے اپنی کتاب " تنبیہ الغافلین " میں نقل کی ہے ،یہ بزرگ فقیہ ہونے کے ساتھ ایک قصہ گو واعظ بھی تھے ، اور اسی شوق کی تکمیل میں وعظ و قصص کے موضوع پر ایک کتاب "تنبیہ الغافلین " بھی لکھ ڈالی ، اور اس میں بے شمار بے سروپا روایات جمع کردیں ،
آپ کی مسئولہ روایت بھی انہی میں سے ایک ہے ، جس کو بغیر کسی سند
اور حوالہ کےسمر قندی صاحب نے " تنبیہ الغافلین " میں بے دھڑک نقل فرما
دیا ہے ،
سمرقندی صاحب لکھتے ہیں :
وذكر أن رجلا جاء إلى عمر بن الخطاب يشكو إليه زوجته ۔۔۔۔ الخ
کہ کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی اپنی بیگم کی شکایت لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔۔۔
یعنی چار صدیاں پہلے کی بات بغیر کسی سند کے صرف " کہا جاتا ہے " کی بنیاد پر پیش کر رہے ہیں ؛
اسی لئے :
امام الذہبی ” تاريخ الإسلام ” میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ( حوادث 351 - 380 ) :
وفي كتاب ” تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة .ا.هـ.
یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت ) پائی جاتی ہیں "
اور علامہ الالبانی رحمہ اللہ کے نامور شاگرد الشيخ مشهور بن حسن - حفظه الله فرماتے ہیں :(( كتاب "تنبيه الغافِلين"؛ فهو مجموعٌ لمِثل هذه القصص المكذوبة، والحِكايات التي لا أسانيد لها ولا أزمَّة ))
کتاب تنبیہ الغافلین جھوٹے قصوں کا مجموعہ ،اور بے سند اور بے بنیاد حکایات کی گٹھڑی ہے "
[نقلًا من "قصص لا تثبت"، (3/22-23)]
سمرقندی صاحب لکھتے ہیں :
وذكر أن رجلا جاء إلى عمر بن الخطاب يشكو إليه زوجته ۔۔۔۔ الخ
کہ کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی اپنی بیگم کی شکایت لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔۔۔
یعنی چار صدیاں پہلے کی بات بغیر کسی سند کے صرف " کہا جاتا ہے " کی بنیاد پر پیش کر رہے ہیں ؛
اسی لئے :
امام الذہبی ” تاريخ الإسلام ” میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ( حوادث 351 - 380 ) :
وفي كتاب ” تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة .ا.هـ.
یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت ) پائی جاتی ہیں "
اور علامہ الالبانی رحمہ اللہ کے نامور شاگرد الشيخ مشهور بن حسن - حفظه الله فرماتے ہیں :(( كتاب "تنبيه الغافِلين"؛ فهو مجموعٌ لمِثل هذه القصص المكذوبة، والحِكايات التي لا أسانيد لها ولا أزمَّة ))
کتاب تنبیہ الغافلین جھوٹے قصوں کا مجموعہ ،اور بے سند اور بے بنیاد حکایات کی گٹھڑی ہے "
[نقلًا من "قصص لا تثبت"، (3/22-23)]
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا
تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment